Toham parasti ke putly article by Ume Amara

articles

توہم پرستی کے پتلے

ABSTRACT
برکہ افریقہ کے گاؤں مافی ڈوو میں رہنے والی غلام لڑکی تھی۔ یہ ایک ایسا توہم پرست گاؤں تھا جہاں بچوں کی پیدائش کا حق صرف امراء کو تھا اور غلاموں کو بچہ پیدا کرنے پر بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔امراء اپنی خدمات کے لیے دوسرے شہروں سے لوگوں کو غلام بنا کر لاتے تھے ایک دن کھیتوں میں کام کرتے ہوئے برکہ کی ملاقات ایک لڑکےمالجر سے ہوئی۔وہ لڑکا اس عجیب توہم پرستی والے گاؤں کا جائزہ لینے کے لیےگھانا سے آیا تھا۔وہ ایسا گاؤں تھا جہاں بچوں کی پیدائش کے علاوہ جنسی خواہشات کو بھی پورا کرنے پر بھی غلاموں پر پابندی تھی۔ایسی صورتحال میں برکہ ایک دو ملاقات میں ہی اپنا وجود و جذبات ما لجر کے حوالے کر دیتی ہےاور وہ مالجر کے واپس گھانا جا نے کے بعد اس خوف کی وجہ بہت خاموش رہتی ہے کہ اگر کسی کو خبر ہو گئی کہ میں حاملہ ہوں تو گاؤں کے امراء مجھے ذندہ درگور کر دیں گے۔ اس خوف کی وجہ برکہ رات کی تاریکی میں گاؤں چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے۔ حقیقت میں اسے مالجر سے یک طرفہ محبت بھی ہو جاتی ہے یوں گاؤں چھوڑنے کا محرک مالجر کی محبت بھی ہوتی ہے ۔ گاؤں سے نکل کر اس کی اول ترجیح گھانا میں مالجر کو ڈھونڈ نے کی ہوتی ہے لیکن ایک تھکا دینے سفر کے بعد وہ مالجر کو ڈھونڈنے میں ناکام رہتی ہے۔گھانا میں اس کے دن سڑکوں پر مالجر کو ڈھونڈتے ہوئے اور راتیں فٹ پاتھ پر لیٹ کر مالجر کے خواب سوچتے ہوئے گزر رہی ہوتی ہیں کہ اسی اثناءراہ میں برکہ ایک پارک میں کچھ گاڑیوں کی اوٹ میں چھپ کر بچی کو جنم دے دیتی ہے ۔برکہ اچانک طبیعت خراب ہو جا نے کی وجہ سے چیخ و پکار کرنا شروع کر دیتی ہے۔برکہ کی آواز سن کر پارک کا عملہ وہاں جمع ہو جا تا ہے اور برکہ کو ہسپتال منتقل کر دیتا ہے ۔ہسپتال میں دو دن کے بعد برکہ کی موت ہو جا تی ہے اور اس طرح برکہ اپنی بچی کو لا وارث اس جہاں میں چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ مافی ڈوو گاؤں کے امراء کی ایک بے اولاد مونٹا نامی عورت اسی ہسپتال میں علاج کے غرض سے آئی ہوتی ہے۔مونٹا ہی مافی ڈوو کے رئیس خاندان کی واحد فردتھی جس کے اندر انسانیت کا رنگ پایا جاتا تھا اور اس کے اندرانسانیت کا یہ رنگ شاید بے اولاد ہونے کی وجہ سے ذہنی آسودگی کے فقدان کی عکاسی کرتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔جب مونٹا کی نظر اس لا وارث معصوم بچی پر پڑتی ہے تو وہ ڈاکٹر سے اس بچی کوگود لینے کا سوال کر تی ہے اور ڈاکٹر کی رضامندی کے بعدوہ بچی کو گود میں اٹھائے اپنے محل نما گھر میں لے آتی ہے بچی کی آمد پر مونٹا کے حکم سے گھر میں تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہےاور بچی کا نام زونا (اس گاؤں کے رئیس خاندان کی سب سے بڑی بیٹی کا لقب)رکھا جاتا ہے یوں تقدیر اسی گاؤں کے کھیتوں میں کام کرنے والی غلام برکہ کی بیٹی کو گاؤں کے رئیس خاندان کی زونا قرار دیتی ہے ۔ دن گزرتے جاتے ہے اور جب زونا سکول جانے کا قابل ہوتی ہے تو زونا کی ماں مونٹا ہزاروں مخالفتوں کے باوجود زونا کو گھانا کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور زونا کو ہی اس گاؤں کے امراء کی وہ پہلی بیٹی سمجھا جاتا ہے جسے تعلیم حاصل کرنے کے لیے شہر بھیجا گیا اور پھر سکول کی تعلیم کے بعداعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے زونا یونیورسٹی تک جانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔یوں گھانا کی نیورسٹی میں اس کی ملاقات ریسرچ پروجیکٹ پر کام کرنے والے پروفیسر مالجر سے ہوتی ہے۔ یہ وہی مالجر تھا جو اٹھارہ سال پہلے ریسرچ پروجیکٹ پر کام کرتے ہوئے ایک مافی ڈوو نامی گاؤں کا جائزہ لینے گیا تھا اور مافی ڈوو کی ایک کمسن غلام لڑکی برکہ جس کی زندگی پہلے ہی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی،اس کو مزید گھپ اندھیرے میں دھونس آیا تھا۔ چالیس برس کا مالجر اب بھی چھبیس سال کا خوبصورت مرد تھا ۔اب بھی برابر کے امکان تھے کہ کوئی بھی دوشیزہ لڑکی برکہ کی طرح آنکھیں بند کر کے اس جاذب نظر آنے والے شخص کے عشق کی مریض بن سکتی ہے اور پھرایسا ہواکہ زونا بھی اپنی ماں برکہ کی طرح اظہارجذبات میں کچی ٹھہری اوراس نوخیز پھول نے لا شعوری کے عالم میں اپنے ہی باپ سے اظہارِ محبت کر ڈالا۔ آہستہ آہستہ پوری یونیورسٹی میں چالیس سالہ پروفیسر مالجر اور انیس سالہ زونا کے عشق کے چرچے ہونے لگے۔ لائبریری میں دونوں گھنٹوں تک محو گفتگو رہتے اور دونوں نے ایک دوسرے سے مل کر فیصلہ بھی کر لیا کہ زونا یونیورسٹی کہ تعلیم کے بعد مالجر کو لے کر گاؤں جائے گی اور پھر وہاں جا کر شادی کرے گے لیکن زونا کا ارادہ تھا کہ شادی کرنے سے پہلے مافی ڈوو کی جاہلانہ توہم پرستیوں کا خاتمہ کرنا اشد ضروری ہے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسے مالجر کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔آخر کار زونا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جدت پسندلڑکی تھی وہ ایسی توہم پرستیوں کا اپنے گاؤں میں کیونکر پالن ہونے دیتی جو فطرت کے عین خلاف تھیں لیکن زونا اس بات سے نا آشنا تھی کہ وہ خود بھی ایک غیر فطرتی فیصلہ کر چکی ہے یعنی اپنے ہی باپ سے شادی کافیصلہ۔۔۔۔۔ ۔زونا کی تعلیم مکمل ہوئی تو دونوں گاؤں آئے۔شادی کا ارادہ ظاہر کرنے سے پہلے انہوں نے گاؤں کی توہم پرستیوں مثلاً غلاموں کو بچے پیدا کر نے پر یا شادی کرنے پر پابندی وغیرہ پر کام کرنا تھا۔گاؤں کے امراء کو جب ان کے ارادے کا علم ہوا تو وہ کسی بپھرے شیروں کی طرح ان دونوں کا شکار کرنے پر تیار ہو گئے۔سچ کہتے ہیں جن کو وراثت میں توہم پرستی ملی ہو ان کے لیے اس کو ایک دم چھوڑنا نا ممکن ہوتا ہے۔ دونوں کو مونٹا کی بھرپور حمایت حاصل ہوتی ہے لیکن سب امراء اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں ہمارے غلام ہماری ہی برابری نہ کرنے لگے۔دونوں کو قتل کرنے کا ارادہ سنا دیتے ہیں۔مونٹاکسی نہ کسی طریقے سے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے زونا کو بچا لیتی ہے آخراس کا رئیس خاندان سے تعلق تھا اتنا تو کر ہی سکتی تھی۔ لیکن جدت پسند پروفیسر سے دور رکھنے کے لیے زونا کو گھر میں قید رکھا جاتا ہے بیچارے پروفیسر کو قتل کردیا گیا۔اس طرح گاؤں کی توہم پرستی تو نہ ختم ہوئی لیکن مالجر کو برکہ سے ظلم کرنےکی سزا مل جاتی ہےاور دوسری طرف اپنی ہی بیٹی سے شادی کرنے سے بچ گیا

.

*************

2 thoughts on “Toham parasti ke putly article by Ume Amara

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *