Kya hum azad hain article by Aqsa Saqi

کیا ہم آزاد ہیں ؟

اقصی ساقی

“آزادی”پہلے تو اس لفظ کا مطلب جان لینا بے حد ضروری ہے اور ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ ہمیں آزاد کیوں کروایا گیا یعنی اقبال نے جو خواب دیکھا آزادی کا اور جناح نے جسے تعبیر کرنے کی کوشش کی وہ کیوں تھی ان کے مقاصد کیا تھے وہ کیا چاہتے تھے ۔ 11اگست کو جناح نے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ؛ “آپ آزاد ہیں’آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کیلئے آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کیلئے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کیلئے آپ کا تعلق کسی بھی ذات’مذہب’نسل سے ہو ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں” اسکا مطلب کہ جناح نے ہمیں آزادی دلوانے کی کوشش کی تاکہ مسلمان اپنی مساجد میں بغیر ڈروخوف کے جاسکیں جہاں مسجد میں بچوں کو پڑھنے بھیجیں تو ماؤں کو پیچھے سے دھڑکا نہ لگا رہے کہ ہماری اولاد نہ جانے لوٹ سکے یا نہیں جہاں کوئی نمازی مکمل نماز خشوع و خضوع سے ادا کرے تو اسے پیچھے کسی وار کا تصور بھی نہ ہو لیکن یہ آزادی ان کا تصور تھا ہم نے تو وہ آزادی حاصل کرکے بھی گنوادی کیونکہ ہم آزاد رہنا نہیں چاہتے تھے ۔ اقبال نے خواب دیکھا تھا اور فرمایا تھا چاہتا ہوں کہ؛ “سرحد’سندھ’پنجاب’بلوچستان ایک ہی ریاست میں ملایا جائے” مزید اقبال نے کہا کہ “ہندوستان الگ الگ اقوام کا وطن ہے جن کی نسل’زبان’مذہب سب ہی دوسرے سے الگ ہیں ان کے افعال اور اعمال میں وہ احساس پیدا نہیں ہوسکتا جو ایک ہی نسل کے مختلف افراد میں پیدا ہوتا ہے” اقبال کے تصور کے پیش نظر چار صوبے تو ایک ریاست میں جمع ہوگئے اور جس نسل کو وہ ساتھ جوڑے رکھنا چاہتے تھے وہ آج ظاہری طور پر تو ساتھ ہے لیکن حقیقی طور پر ہر ایک کا الگ نظریہ ہے اقبال نے کہا تھا کہ نسل ایک ساتھ ہو تو ان کے احساسات بھی ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن یہاں تو کسی کو احساس کی فکر ہی نہیں ہر دوسرا فرد پاکستان کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہے سیاسی جماعتوں میں مل کر اس قدر سفید خون ہوچکے ہیں کہ اگر دو بھائی ایک گھر میں رہتے ہیں اور دونوں کا الگ سیاسی جماعت سے تعلق ہے تو دونوں ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے کے بھی روادار نہیں کیا یہ وہ آزادی ہے جس کا تصور کرکے اقبال نے خواب کو پیش کیا تھا کیا ہم پھر بھی کہتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں ۔ ہمارے بزرگوں نے بہت جد جہد کی تھی اور وہ جد جہد انگریزوں سے لڑ کر اپنے وطن کو حاصل کرنے کیلئے کی تھی لیکن ہم تو اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں اور کالجوں میں پڑھا کر انہیں فرنگی بنا کر یہ ثابت کررہے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے جو جد جہد کی وہ بے فضول تھی ہمیں آزادی نہیں چاہئیے ہم فرنگیوں کی قید میں ہی ٹھیک ہیں کیونکہ یہاں ہم خود کو آزاد محسوس کرتے ہیں اگر کسی کا بچہ ارود میڈیم اسکول میں پڑھے تو وہ جاھل گنوار ہی کہلاتا ہے اور اگر ہمارا بچہ انگلش میڈیم میں پڑھے تو اگرچہ وہ کتنا نالائق ہو لیکن اسے انگلش کی اے بی سی آتی ہے اسے فرنگیوں کی سمجھ آتی ہے مطلب ٹھیک ہے وہ بہت پڑھا لکھا آفیسر بنے گا کیونکہ انگریزی آنا کوئی معمولی بات تھوڑی ہے ہمارے بزرگوں نے تو بلاوجہ جانیں گنوادی انگریزی ہی آج ہمارا کرتا دھرتا بن چکی ہے۔ ہمارے وطن کی ثقافت جہاں ہماری پہچان ہے اسے ہم نے مکمل طور پر چھوڑدیا ہم نے قومی لباس کو چھوڑدیا ہماری نوجوان لڑکیوں نے ڈوپٹہ جیسی عظیم چیز کو چھوڑدیا کیونکہ یہ سب تو پرانے فیشن بن چکے ہیں قمیض شلوار ڈوپٹہ اب تو پاکستان بھی پرانا ہوگیا ہماری نوجوان نسل کیلئے اور ہماری ثقافت بھی پرانی ہوگئی اب ہمارے بچوں کو فرنگی اور غیر ملکی ہر لباس میں اچھا محسوس ہوتا ہے انہیں ہر قسم کے بیہودہ پہناوے میں نیا پن نظر آتا ہے اگرچہ وہ پہناوا ہمارے اسلام میں کتنا ہی برا کیوں نہ محسوس کروایا جاتا ہو لیکن پھر جب کوئی اس چیز سے روکے تو کہا جاتا ہے ہم آزاد ہیں ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد پشاور کے اسلامیہ کالج میں فرمایا تھا کہ؛”ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جگہ چاہتے ہیں جہاں اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں” ۔ اور اسلامی اصول کا تو علم بھی نہیں ہے ہمارے اسکول کالجز میں پہلے جہاں اسلام کے نام پر اسلامیات کو تھوڑا وقت دیا جاتا تھا اب وہ پورا سال طلباء کے بستوں میں ہی رہتی ہے کتاب اور سال کے آخر دنوں میں اہم سوالات بتا کر اس کا حق ادا کردیا جاتا ہے طلباء کو یہ نہیں سکھایا جاتا تھا اسلام کیا ہے دین کیا ہے ؟ بلکہ طلباء کیلئے وہ ایک غیر اہم نصابی کتاب بن چکی ہے طلباء کا اسلام سے یہ دوری کا حال دیکھ کر کیا ہم کہ سکتے ہیں کہ اب آزاد ہیں ؟ یہاں بات کی جائے علماء کی جنہوں نے تقسیم پاکستان کے وقت جدوجہد کی ساتھ مقصد دین بھی سکھایا تو فل وقت معاشرے میں انہیں “پرانی سوچوں والا ملا” کہہ کر مخاطب کی جاتا ہے۔ پہلے جہاں وطن پاکستان میں فرض قربانی کرنے کیلئے گائے کو قربان کرتے وقت کوئی خوف و شک نہیں ہوتا تھا اب کچھ احمقوں کی مہربانی سے وہ بھی ممکن ہوگیا ہے اس سال کتنے ہی صاحب حیثیت لوگوں نے یہ کہ کر قربانی نہیں کی یہ بے جا ظلم ہے یہی پیسے ہم غریبوں میں بھی تو بانٹ سکتے ہیں اور پھر وہ قربانی سے رک گئے تو کیا یہ آزادی ہے ؟ ہاں ہم آزاد ہیں لیکن فقط ظاہری طور پر حقیقی طور پر ہر شخص ہی یہاں قید ہے فرنگیوں کا پجاری ہے اور قصور ان فرنگیوں کا کم ہمارا زیادہ ہے ہم نے انہیں اس قدر خود پر غلبہ دے دیا ہے اب ہم بقول جناح اور بقول اقبال آزاد تو ہیں لیکن پھر بھی ہم آزاد نہیں ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *