Tajassus by Amraha Sheikh

Tajassus by Amraha Sheikh ۔ It is a short story based on horror incidents and friends . It tell us about the curiosity of humans

تجسس

امرحہ شیخ

“تمہیں آتا ہے جن بلانا؟ “نہیں بھئی توبہ کرو مجھے نہیں آتا ایسا کچھ۔۔۔سامیہ کی بات پر اُسکی سہیلی نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوۓ جھرجھری لی.۔۔۔”تمہیں کچھ آتا بھی ہے ڈرپوک لڑکی۔۔۔اٹھو پھر یہاں سے میں خود بلاؤں گی۔۔۔۔سامیہ کی بات پر اُسکی سہیلی جس کا نام حجاب تھا پوری آنکھیں کھولے اسے دیکھ کر تیزی سے اٹھ کر چھت سے نیچے بھاگی۔۔۔سامیہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی میٹرک کی طالب علم جسے بچپن سے ہی پریاں شہزادیاں نہیں بلکےجن بھوتوں والی کہانیاں سننے اور پڑھنے کا شوق تھا لیکن جب سے اسے معلوم ہوا تھا کے جن کو اگر بلایا جائے تو وہ آ بھی جاتے ہیں تب سے وہ ہر شام کو سونے کا بہانہ کر کے کمرے میں اندھیرا کرتی جنوں کو بلانے کی کوشش کرتی لیکن ہمیشہ ناکام ہوجاتی اور یہی ناکامی اسے کسی جن زادے کو دیکھنے کا تجسس بڑھاتی چلی گئی۔۔۔_”سامیہ کیا کر رہی ہو؟ کرن بیگم کمرے میں جھانکتی اسے بولیں جو بستر پر بیٹھی موبائل میں کچھ پڑھ رہی تھی۔۔۔آواز پر بری طرح گھبرائی کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ گیا۔۔”اففففف!! اللہ‎ امی کیا کرتی ہیں ڈرا دیا۔۔۔۔خفگی سے بولتی اس نے موبائل دوبارہ اٹھایا۔۔۔”ہاہاہاہا۔۔۔تم اور ڈر گئی میں تو یہ مان ہی نہیں سکتی۔۔۔کرن بیگم ہنس کر بولتیں اندر آئیں۔۔۔”پھر کوئی بیکار کہانیاں پڑھ رہی ہوگی۔۔۔”امی پلیز انہیں بیکار نہ کہا کریں۔۔”اچھا نہیں کہ رہی اب اسے چھوڑو آجاؤ کھانا کھانے۔۔۔”بس پانچ منٹ آرہی ہوں۔سامیہ نے مسکین شکل بنا کر اپنی ماں کو دیکھا جو ہنس کر “ٹھیک ہے” کہتیں باہر نکل گئیں۔انکے جاتے ہی سامیہ نے دوبارہ گوگل کھول کر “اچھے جنوں کو بلانے کا طریقہ”سرچ کرنے لگی لیکن ہر بار کی طرف اس بار بھی ناکام ہوئی۔۔۔__”تم نے وہ ہارر ناول پڑھا جس میں ہیرو جن ہوتا ہے اور اتنا اچھا اور خوبصورت ہوتا ہے کے کیا بتاؤں۔۔۔میرا تو دل کر رہا تھا کاش میں اس سے ایک بار مل لوں۔۔۔سامیہ بریک کے وقت کلاس میں بیٹھی سہیلیوں سے پوچھنے لگی۔۔”تم بیوقوف ہو اصل میں سامنے آگئے نہ تو لگ پتا جائے گا۔۔حجاب گھورتے ہوئے کہتی کلاس سے نکل گئی۔۔۔”سامیہ اسکی باتوں کو چھوڑو خود تو وہ ڈرپوک ہے تم مجھے بتاؤ۔۔۔رابیل نے منہ بنا کر کہتے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا۔۔۔۔”ڈرپوک وہ نہیں بلکہ تم دونوں پاگل ہو۔۔۔سامیہ تم کیا سمجھتی ہو جنّات صرف اچھے شریف خوبصورت نیک ہوتے ہیں ؟ “ہاں بلکل۔۔۔۔”غلط محترمہ جنّات میں بھی بُرے شرارتی اور گندے جن ہوتے ہیں جو انسان کو ڈراتے ہیں تنگ کرتے ہیں خوفزدہ کرتے ہیں اور تو اور جان بھی لے لیتے ہیں۔۔۔بسمہ نے سنجیدگی سے انہیں بتایا۔۔۔دونوں بہت غور سے اسکی باتیں سن رہی تھیں اسکے چپ ہوتے ہی سامیہ بولی “اور کچھ بتاؤ نہ انکے بارے میں مجھے بہت تجسس ہوتا ہے جب میں سنتی ہوں تو. “ہا! کسی اچھی بات یا اچھی چیز جاننے میں تجسس نہیں ہوتا تمہیں۔۔میں نے سنا ہے جن چیزوں کا ذکر ہو وہ ہمارے اردگرد جما ہوجاتی ہیں۔۔۔انکے اور ہمارے درمیان پردہ ہے ورنہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو شاید جن کا جنون تمھارے تصّور میں بھی نہیں آتا۔۔بسمہ اسکی بات پر چڑ کر کلاس سے نکل گئی۔۔سامیہ اور رابیل نے ایک دوسرے کو دیکھا اور زور سے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس دیں۔۔___ایک دن اسکول سے واپسی پر رابیل سامیہ کے ساتھ اسکے گھر آگئی۔۔۔دونوں کھانا کھا کر کمرے میں آگئِیں۔۔۔سامیہ کے والد کی اپنے کپڑوں کی دکان تھی تبھی وہ گھر پر نہیں تھے جب کے کرن بیگم کھانے سے فارغ ہوکر پڑوس میں گئی ہوئی تھیں۔۔۔”یار جلدی جلدی نکالو سامان۔۔۔۔سامیہ فرش پر بیٹھی چاک سے دائرہ بناتی بسمہ سے بولی جو جلدی سے تین چار لمبی موم بتیاں بیگ سے نکل کر اسکے پاس آگئی تھی۔۔”بسمہ اگر کوئی بُرا جن زادہ آگیا تو۔۔۔”پاگل ہو کیا ہم اچھے کو بلاییں گے تو وہی آئے گا۔۔۔بسمہ نے اسکی بات پے ناک سے مکھی اڑائی۔۔کچھ ہی دیر میں سیٹ کرتی ہاتھ پکڑ کر دائیرے کے اندر بیٹھ کر آنکھوں بند کر کے جن زادے کو بلانے لگیں۔۔۔بیس منٹ تک کچھ نہیں ہوا سامیہ نے جھنجھلا کر آنکھیں کھولیں۔۔۔”اس سے کچھ نہیں ہوگا بھاڑ میں گیا سب کوئی جن زادہ ہے ہی نہیں اففف۔۔چھوڑو (ان مخلوں کو جھٹلایا نہیں جا سکتا جیسے جادو برحق ہے اسی طرح یہ بھی ہیں ) ۔۔۔رابیل کو بولتی وہ اٹھ کر کمرے کو روشن کر کے سامان سمیٹنے لگی۔۔۔رابیل نے بھی منہ بنا کر موم بتیاں اٹھائیں۔____دو مہینے بعد۔۔۔۔”السلام علیکم۔۔۔کیسی ہیں آنٹی ؟ “وعلیکم اسلام بیٹی جس کی اکلوتی بیٹی مر جائے وہ ماں کیسی ہوسکتی ہے۔۔کرن بیگم نے نڈھال سے انداز میں کہا۔. “مجھے کل ہی پتہ چلا سامیہ کا وہ تو ماشاءالله بلکل سہی تھی پھر اچانک ایسا کیا ہوگیا تھا آنٹی ہر کوئی عجیب عجیب قصہ سنا رہا ہے۔۔۔۔بسمہ نے انہیں دیکھا جو اسکی بات پر خوفزادہ سی اسے دیکھ رہی تھیں۔۔”نہیں وہ ٹھیک نہیں تھی اللہ‎ جانے کیا ہوگیا تھا اسے ڈرنے لگی تھی۔۔بہت بہت زیادہ خافزدہ رہنے لگی تھی۔۔۔مجھے کہتی تھی کے میرے ساتھ سویا کریں ورنہ وہ رات بھر گندی حرکتیں کرتا ہے مجھے تنگ کرتا ہے میں نے اور اسکے ابّو نے اتنے دم کرواٙئے لیکن وہ ٹھیک ہونے کے بجائے بگڑتی چلی گئی۔۔۔رات کو عجیب عجیب آوازیں نکالتی کبھی اونچے اونچے قہقہے لگاتی تو کبھی زور زور سے روتی چیختی کسی سے لڑتی۔۔۔ کمرے سے گندی بدبو آنے لگی تھی لیکن ہم۔۔۔ہم کچھ نہیں کر سکے۔۔۔اللہ‎ جانے کون سی شیطانی چیز نے ہماری بچی پر قبضہ کر لیا تھا اور ہم کچھ بھی نہیں کر پا رہے تھے۔۔۔بسمہ کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے سن کر۔۔،کنکھیوں سے سامیہ کے بند دروازے کو دیکھ کر اس نے آیت الکرسی پڑھ کر درود شریف کا ورد کرنا شروع کیا۔۔۔بسمہ کو سامنے کھڑی عورت پر بے تحاشا ترس اور دکھ ہوا۔۔۔انہیں روتا چھوڑ کر وہ پلٹ کر گھر سے نکل گئی۔۔۔سامیہ کو اسکے جنون نے مار دیا۔۔کبھی کبھی ہمارا ضرورت سے زیادہ تجسس ہی زندگی کو نگل جاتا ہے۔۔۔اس نے سمجھایا تھا اسے کہانیوں اور حقیقتوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔۔۔یہی سب سوچتی بسمہ سر جھٹک کر اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔۔۔

ختم شد!!

.

*************

One thought on “Tajassus by Amraha Sheikh

  1. I was not able to understand this line:
    بسمہ نے اسکی بات پے ناک سے مکھی اڑائی
    I come across this expression in all modern Urdu writers in Pakistan but alas! the dictionaries I consult do not say what is meant by ‘naak se makkhii uRaanaa’. May I request the author, Amraha Sheikh saahiba, to tell me what it means? شکریہ.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *